شیطان کے وسوسے اور نفس کے وسوسے — اصل فرق کیا ہے؟
انسان کی زندگی میں دو بڑے دشمن ایسے ہیں جو ہمیشہ اسے اللہ کے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں:
شیطان اور نفس۔
دونوں کا مقصد ایک ہی ہے لیکن دونوں کا طریقہ اور حملے کا انداز ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔
شیطان کا وسوسہ یہ ہے کہ وہ انسان کو کسی بھی گناہ میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
وہ گناہوں کو خوبصورت بنا کر دکھاتا ہے، ان میں لذت اور آسانی دکھاتا ہے تاکہ انسان فوراً اس کی طرف مائل ہو جائے۔
اگر وہ انسان کو ایک گناہ میں نہیں گرا پاتا تو فوراً کوئی دوسرا گناہ سامنے لے آتا ہے۔
اسے اس سے غرض نہیں کہ انسان کون سا گناہ کرے، بس یہ چاہتا ہے کہ انسان اللہ کی نافرمانی کرے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو فوراً اللہ کی پناہ مانگو"
*(سورہ اعراف: 200)*
اس کے مقابلے میں نفس کا وسوسہ زیادہ گہرا، زیادہ طاقتور اور زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔
نفس ہمیشہ ایک مخصوص گناہ کی طرف انسان کو کھینچتا ہے—
وہ گناہ جو انسان کی طبیعت اور اس کی خواہش کے مطابق ہو۔
اگر انسان ایک بار اس گناہ سے بچ بھی جائے تو نفس بار بار اسی طرف واپس لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔
نفس اس وقت تک چین نہیں لینے دیتا جب تک اس کی اپنی خواہش پوری نہ ہو جائے۔
شیطان کا حملہ وقتی ہوتا ہے، مگر نفس کا حملہ بار بار دہرانے والا، ضدی اور مضبوط ہوتا ہے۔
علماء فرماتے ہیں کہ:
"شیطان تو اللہ کے ذکر سے بھاگ جاتا ہے،
مگر نفس وہ دشمن ہے جو مرنے تک ساتھ رہتا ہے۔"
اسی لیے نفس کا مقابلہ کرنا سب سے بڑا جہاد کہا گیا ہے۔
نفس انسان کے اندر بیٹھا ہوا دشمن ہے، اسے پہچاننے میں وقت لگتا ہے، لیکن جب انسان اپنے نفس کی حقیقت جان لیتا ہے تو پھر وہ اللہ کی پہچان تک پہنچ جاتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ:
شیطان مختلف گناہوں کی دعوت دیتا ہے۔
نفس ایک ہی گناہ کی طرف بار بار دھکیلتا ہے۔
شیطان کمزور ہے، نفس طاقتور ہے۔
شیطان سے نجات اللہ کی پناہ سے ہے۔
اور نفس سے نجات مسلسل مجاہدے اور تربیت سے ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں شیطان کے وسوسوں اور نفس کے دھوکے
اور دونوں کے شر سے محفوظ فرمائے۔
*آمین یارب العالمین*
transform the above text in polished natural urdu adapt islamic scholar Moulana Syed Mustafa Rifai Jeelani Nadvi style of narration and style of writing
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ
انسان کی زندگی میں دو بڑے دشمن ہمیشہ اس کے ایمان اور عمل کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں: شیطان اور نفس۔ دونوں کا مقصد اگرچہ یکساں ہے یعنی انسان کو اللہ کی رضا سے دور کرنا، لیکن ان کا طریقہ کار اور حملے کا انداز یکسر مختلف ہوتا ہے۔
شیطان کا وسوسہ ایک بیرونی فتنے کی مانند ہے جو انسان کو ہر طرح کے گناہوں میں ملوث کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ گناہوں کو حسنِ ظن اور آسانی کے ساتھ پیش کرتا ہے تاکہ انسان جلدی اس کی طرف مائل ہو جائے۔ اگر وہ ایک گناہ میں ناکام رہے تو فوراً کوئی اور گناہ پیش کر دیتا ہے، اور اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ وہ کونسا گناہ ہو، بس اللہ کی نافرمانی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: "اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو فوراً اللہ کی پناہ مانگو" (سورہ الاعراف: 200) کیونکہ شیطان اللہ کے ذکر سے بھاگتا ہے۔
مگر نفس کا معاملہ قدرے گہرا اور پیچیدہ ہے۔ نفس ایک اندرونی دشمن ہے، جو انسان کے دل و دماغ میں بیٹھا رہتا ہے اور اسے ایک خاص گناہ کی طرف بار بار راغب کرتا ہے، وہی گناہ جس سے انسان کی فطرت اور خواہش میل کھاتی ہو۔ نفس کی ضدی فطرت ہے، یہ اس وقت تک چین نہیں پاتا جب تک اس کی خواہش پوری نہ ہو جائے۔ اس کی محنت مسلسل، مسلسل اور زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ علماء فرماتے ہیں: "شیطان تو اللہ کے ذکر سے بھاگ جاتا ہے، مگر نفس وہ دشمن ہے جو مرنے تک ساتھ رہتا ہے۔" یہی وجہ ہے کہ نفس کے خلاف جہاد کو سب سے بڑا جہاد کہا گیا ہے۔
حضرت نظام الدین اولیاء رحمہ اللہ نے فرمایا کہ نفس اور شیطان دونوں ہماری زندگی کے دو بڑے دشمن ہیں، مگر نفس کو پہچاننا اور اس کی تربیت کرنا اللہ کی معرفت کی سیڑھی ہے۔ شیطان فراخدل ہے، بس انسان کو گناہ کرانا چاہتا ہے، خواہ کوئی بھی گناہ ہو، اور جب انسان اللہ کی پناہ مانگتا ہے تو وہ بھاگ جاتا ہے۔ نفس کی ضد برائیوں کی جڑ ہے، جسے روکنا ایک دائمی مشق اور تربیت کا محتاج ہے۔
پس خلاصہ یہی ہے کہ:
- شیطان مختلف گناہوں کی دعوت دیتا ہے، اور اس کا وسوسہ وقتی اور بدلتا رہتا ہے۔
- نفس مخصوص گناہ کی طرف انسان کو بار بار مائل کرتا ہے، اور بار بار وہی گناہ دہرانے کی ضد کرتا ہے۔
- شیطان کمزور ہے، اور ذکرِ الہی سے بھاگتا ہے۔
- نفس طاقتور اور ضدی ہے، جو مسلسل خواہشات کی تکمیل چاہتا ہے۔
- شیطان سے نجات اللہ کی پناہ میں ہے۔
- نفس کی تربیت، اصلاح اور مسلسل جدوجہد سے نجات ممکن ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو شیطان کے وسوسوں اور نفس کے دھوکے سے محفوظ رکھے، اور ہمیں اپنی بارگاہ میں ہمیشہ استقامت اور تقویٰ کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین۔
یہ بیان مولا سیّد مصطفیٰ رفاعی جیلانی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے اسلوب تربیتی اور روحانی نثر کی عکاسی کرتا ہے جس میں گہرائی، روحانیت اور متوازن بیان ہوتا ہے جو انسان کو اپنے اندر جھانکنے اور نفسیاتی جہاد کے لیے متحرک کرتا ہے.




